Noor ul Huda Photo: Dome of the Rock

Prodigal Son

The Parables of Jesus Christ

The Prodigal Son

مُصرف بیٹا

سیدنا مسیح نے جب تماثیل اور حِکایات کے ذریعے سے لوگوں کو بہت ساری گہری باتیں بتائیں تو ظاہر ہے کہ اُن میں سے زیادہ تر وہی تھے جو یہودی تھے اگر یہ ذہن میں رہے تو بہت ساری باتیں آسانی سے سمجھ میں آنے لگتی ہیں۔ آپ نے ایک حِکایت سُنائی کہ ایک شخص تھا اُس کے دو بیٹے تھے۔ اُن میں سے ایک بیٹے نے کہا، ابّا جان مُجھے میری وراثت کا حصّہ ابھی چاہیئے۔ اگر آپ کبھی غور کریں تو آپ کو معلُوم ہوگا کہ وراثت باپ کے جِیتے جی کبھی نہیں مِلتی؛ وراثت کے حقدار تو آپ ہوتے ہیں لیکن وراثت مِلتی ہے باپ کے مرنے کے بعد لہٰذا جب اُس چھوٹے بیٹے نے کہا کہ ابّا جان مُجھے میرا حق ابھی چاہیئے، مُجھے وراثت کا حِصّہ چاہیئے تو اُس کا کہنے کا مقصد یہ تھا، بڑے میاں بہت بڈھے ہوگئے لیکن مُجھ سے مزید اِنتظار نہیں ہوسکتا میں اُس وقت تک کا اِنتظار نہیں کرسکتا کہ جب بڑے میاں تُم مر جاؤ گے۔ میں کب تک بیٹھا رہوں گا؟ اور تب مُجھے جاکر وراثت کا حِصّہ مِلے گا۔ میرے لئے تُم زِندہ مُردہ ایک سے ہو، میرا حِصّہ مُجھے دو۔ ظاہر ہے کہ یہ الفاظ سُننے کے بعد باپ کے دِل پر جو گُذری ہوگی اِس کا احساس صرف وہی کرسکتے ہیں جو خُود باپ ہوں اور جِن کے بیٹے اِتنے نالائق ہوں۔ کہ جو بیٹا باپ سے کہ کہہ رہا ہو کہ میں آپ کے مرنے کا اِنتظار نہیں کرسکتا مُجھے میرا حِصّہ ابھی دے دیجیئے۔

باپ نے جائیداد دونوں بیٹوں میں بانٹ دی بڑے کا حِصّہ بڑے کو دے دِیا اور چھوٹے کا حِصّہ چھوٹے کو دے دِیا۔ اب آپ خُود سوچیئے باپ تو مر ہی گیا، باپ کے پاس اب رہا کیا، بڑے کا حصّہ بڑے کے پاس اور چھوٹے کا حِصّہ چھوٹے کے پاس، باپ کے پاس کُچھ ہے نہیں۔ اب باپ اپنے بڑے بیٹے کا محتاج ہے دستِ نگر ہے، اُسکے آگے ہاتھ پھیلانے کے لئے مجبُور ہے۔ اپنے بیٹے کی مرضی کے بغیر ایک پیسے خرچ نہیں کرسکتا۔ اِسلئے بڑا بیٹا جب شِکایت کرتا ہے کہ جب میرے دوست احباب آئے تو آپ نے کبھی ایک بکری کا بچّہ بھی ذِبح نہیں کِیا تو اُس کا اعتراض بجا نہیں تھا کیونکہ باپ بکری کا بچّہ کیا چوہے کا بچّہ بھی ذِبح نہیں کرسکتا تھا جب تک کہ بیٹا اِجازت نہیں دیتا کیونکہ جائیداد تو بیٹے کی ہے باپ کے پاس تو کُچھ رہا نہیں۔ چھوٹا بیٹا سارا سازوسامان لے کے چل دیتا ہے، اُس نے وہ علاقہ چھوڑ دِیا۔ وہاں کے دستُور کے مطابِق اُس نے خُود کشی کر لی ہے، وہ غدّار ہوگیا۔ کیونکہ کوئی یہودی، یہودیوں کے علاقے کو چھوڑ کے غیر یہودیوں کے علاقے میں جاتا تو ایسا تھا کہ جیسے وہ مرگیا، مُرتد ہوگیا۔ اور مُرتد کی سزا اُن کے ہاں بھی موت تھی۔ اب اگر جب واپس لوٹ کے آتا تو اُس کو مرنا ہی تھا بچ نہیں سکتا تھا۔ جب تک پیسے تھے تب تک دوست تھے، جب پیسے ختم ہوگئے تو دوست بھی چلتے بنے۔ بے چارہ کرتا کیا بھوکا مرنا گوارہ نہیں تھا تو کرتا کیا؟ کیونکہ غیریہودی علاقہ تھا تو آخر ایک غیریہودی کے ہاں جاکے سوّر چرّانے لگا۔

آپ ذرا سوچیں، ایک یہودی کے نُقطہ نظر سے کہ اُس کے نذدیک سوّر صرف حرام ہی نہیں بلکہ نجس بھی ہے۔ حرام اِس لئے ہے کہ آپ اُسے کھا نہیں سکتے اور نجِس اِس لئے ہے کہ آپ اُسے ہاتھ نہیں لگا سکتے۔ اور سوّر صرف ایسے پالے نہیں جاتے ہیں اُنکو نہلایا جاتا ہے اِس لئے کہ وہ دلدل میں رہتے ہیں، اُسکو ہاتھ لگانا ہی لگانا ہے، کھانا کھِلانا ہے، کُچھ بھی پھلیاں ڈالنا ہے، سُوّروں کے ساتھ رہنا ہے۔ اور یہودیوں کے نذدیک سُوّروں کو کھِلانا ایسا ہی تھا جیسے سُوّر کو کھانا اُن کے نذدیک دونوں ہی حرام تھے۔ یہ وہ کام تھا جو یہودی کبھی کر نہیں سکتا تھا اور یہ یہودی لڑکا یہ کرنے پر مجبُور ہوگیا۔

ظاہر ہے کہ جب وہ واپس گیا ہوگا تو صرف یہی بات نہیں ہوگی کہ اِس نے جیتے جی اپنے باپ کو مار دِیا تھا، کہ یہ غدّار تھا، یہ مُرتد تھا بلکہ یہ تو ایسا مُرتد ہے جو سُوّروں کی صحبت میں بیٹھتا رہا ہے تو ایسے ناپاک آدمی کو اپنے محلّے میں کون آنے دے گا؟ اُسے تو مار ہی ڈالنا چاہیئے۔ لیکن ایک دِن اُسے ہوش آیا کہ یہاں تو اب کُچھ نہیں مِلتا۔ یہ دوستی اُس وقت تھی جب پیسے تھے۔ میں واپس جاتا ہوں کہوں گا ابّا جان آپ مُجھے نوکر رکھ لیں، آپ کا بیٹا کہلائے جانے کے تو میں مُستحق رہا نہیں۔ اِسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ حِکایت میں یہ ہے کہ جب وہ واپس آیا تو باپ دوڑتا ہُوا، بُڈھا باپ دوڑتا ہُوا گیا اور اُسے گلّے لگا لِیا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے پہنچنے سے پہلے لوگ اِسکو ڈنڈے مار مار کے مار ڈالیں کہ یہ مُرتد واپس کیسے آگیا ہے؟ اِس نے تو ہماری پُوری برادری کو بدنام کرکے رکھ دِیا۔ لیکن وہ واپس لوٹا، باپ نے اُسکی جان بچا لی۔

اب رہ گیا بڑا بیٹا جو ہمیشہ گھر میں تھا جِس کا باقی سب کُچھ تھا۔ اُس نے کہا میں تو اندر نہیں آتا۔ اِس مرُدود کے آنے کے بعد تو گھر ناپاک ہوگیا ہے۔ میں نہیں گھُس سکتا بھائی، اِسکی میں شکل نہیں دیکھ سکتا، اِس نے ہمیں ذلیل کردِیا ہے، اِس نےہمیں بدنام کردِیا ہے، یہ تو واجب القتل ہے یہ آیا کیسے؟ اِسے بچایا کِس نے؟ تو ابّا جان باہر نِکل کے کہتے ہیں کہ بیٹا، اِسے میں لے کے آیا ہوں۔ یہ مر گیا تھا زندہ ہوگیا ہے، یہ کھوگیا تھا ہم نے اِسے پالِیا ہے۔ کیا واقع بیٹا مر گیا تھا؟ نہیں، بیٹا مرا یا نہیں مرا، جِس دِن بیٹے نے یہ کہا کہ ابّا جان مُجھ سے آپ کےمرنے کا اِنتظار نہیں ہوتا مُجھے آج ہی جائیداد بانٹ دِیجیئے۔ بیٹا مرا یا نہیں مرا، لیکن بیٹے نے باپ کو مار دِیا تھا۔ حقیقتاً باپ مرگیا تھا اور جب بڑے بیٹے کو حصّہ دِیا اور اُس نے اپنا حصّہ لے لِیا تو اُس نے بھی باپ کو مار دِیا تھا۔ دونوں بیٹوں نے مِل کے باپ کو مار دِیا۔ اُس نے بھی جِس نے شریعت کی خِلاف ورزی کی اور اُس نے بھی جِس نے شریعت کی پابندی کی۔ دونوں نے مذہبی آدمی نے بھی مار دِیا اور غیرمذہبی آدمی نے بھی مار دِیا۔  کہہ رہا ہے نہیں میں اندر نہیں جاؤں گا، باپ اُسے کہہ رہا بیٹا اندر جاؤ، اندر جاؤ اور باپ اُسکے ہاتھ پیر پکڑ رہا ہے اور اُسکو گلّے سے لگا کے اندر لے جانا چاہتا ہے۔ آپ ذرا سوچیئے، خُدا نخواستہ آپ اُس بڑے بیٹے کی جگہ ہوتے، آپ اُس باپ کے گلّے لگنا چاہتے۔ وہ باپ جو ابھی ایک ایسے شخص کے گلّے لگ کے آیا ہے جو مُرتد ہے، جو واجب القتل ہے، جو سُوّروں کے درمیان رہا ہے، جِس کے کپڑے ناپاک ہیں اِس لئے اُسکو گلّے لگانے سے باپ کے کپڑے بھی تو ناپاک ہوگئے ہیں تو اب اِس کو میں کیسے گلّے لگاؤں؟

یہ تو شریعت کا پابند ہے بالکُل ایک قدم بھی خِلافِ شریعت نہیں اُٹھاتا اِس کا عالم ایسا ہے جو شاعر نے کہا؛

خِلافِ شعرا تو یوں شیخ تھُوکتا بھی نہیں

مگر اندھیرے اُجالے میں چُکتا بھی نہیں

شریعت کا اِتنا احترام ہے اور باپ کو جیتے جی مار ڈالا اُسکا کوئی خیال ہی نہیں ہے۔ باپ سے شِکایات ہیں۔ وہ اُسے یاد نہیں آتا کہ شریعت نے یہ بھی کہا ہے کہ والدین کا احترام کرنا، بے عزّتی کرتا ہے، باپ کے فیصلے کے خِلاف جاتا ہے لیکن وہاں اُسکو شریعت ٹوٹتی دِکھائی نہیں دیتی، شریعت دُوسرے کے حق میں ٹوٹتی دِکھائی دیتی ہے کہ اِس نے شریعت کی مُخالفت کی ہے میں تو پابندِ شریعت ہوں، میں تو ایک قدم بھی شریعت کے بغیر نہیں اُٹھاتا۔ ابّا جان آپ کو بھی شریعت کا احترام نہیں ہے، اِس نالاَئق کو بھی نہیں تھا، یہ آپ نے کیا کِیا؟ آپ نے تو ہمیں اِس گاؤں میں رہنے کے قابِل نہیں رکھّا کہ آپ نے ایسے بیٹے کو واپس لے لِیا۔ اور سچّی بات یہ ہے کہ چونکہ باپ نے بیٹے کو پناہ دے دی تھی اِسلئے معاشرے میں بیٹے کو کوئی کُچھ نہیں کہتا ہوگا لیکن باپ روز برادری والوں سے گالیاں سُنتا ہوگا۔ باپ کو بیٹوں نے مار ڈالا اور اب وہ روز معاشرے کی گالیاں سُنتا ہے کہ یہ باپ ہے ارے اِسکی جگہ ہم ہوتے تو ایسے بیٹے کا گلا دبّا دیتے۔ وہ روز گالیاں سُنتا ہوگا اپنے اِس بیٹے کی وجہ سے۔

یہ ایک ایسی تمثیل ہے کہ جِسے جب ہم سُنتے ہیں تو ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کیا خُدا کی محبت ایسی ہے کہ ہم سے پیار کرکے وہ بدنام ہورہا ��������۔ روز اُسے ہماری وجہ سے لوگوں کی گالیاں سُننا پڑتی ہیں۔ یہ اگر ماننے والے ایسے ہیں تو جِسے یہ مانتے ہیں وہ کیسا ہوگا؟ وہ بھی اِنہی جیسا ہوگا بلکہ اِن کا بھی باپ ہوگا۔ تو وہ مُسلسل دُنیا سے گالیاں سُنتا ہے۔ لیکن اپنے پیار اور محبت کے ہاتھوں مجبُور ہے کونکہ اُسکا ہم سے رِشتہ ایسا ہے کہ وہ رِشتہ نہیں ٹوٹتا۔ بیٹے نے کہا، میں آپ کا بیٹا کہلانے کے لائق نہیں رہا لیکن باپ کی زبان سے یہ الفاظ کبھی نہیں نِکلے کہ بیٹے میں بھی تو تیرا باپ کہلانے کا لائق نہیں رہا بلکہ اُس نے کہا بیٹے اندر چلوں اُس نے وہی بیٹے کا لفظ اِستعمال کِیا۔ بڑا بیٹا کہہ رہا ہے یہ آپ کا بیٹا ہے ماشا ا، اُس نے یہ نہیں کہا کہ میرا بھائی، اُس نے کہا کہ یہ آپ کا بیٹا جِس نے پیسے لئے جاکے تمام طوئفوں میں اڑا دیئے، عیاشی کرتا رہا اب واپس آگیا ہے تو اِس کے لئے بڑے جشن منائے جا رہے ہیں اور مُجھے آپ نے کبھی پُوچھا بھی نہیں۔ وہ بیٹا بھی طعنے دے رہا ہے، برادری والے بھی طعنے دے رہے ہیں، سب کے طعنے سُن رہا ہے لیکن مجبُور ہے اپنی محبت کے ہاتھوں۔ اگر خُدا کی ذات کو سمجھنا ہے تو یہ سمجھیئے کہ وہ اپنے باہر کے وجہ سے یا خارجی چیزوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے اندر کی محبت کی وجہ سے اِتنا مجبُور ہے ہم سے پیار کرنے پر کہ سب کُچھ اُسے برداشت کرنا پڑتا ہے، چھوٹے بیٹے کو، بڑے بیٹے کو اور پُوری برادری کو، سب کی باتیں سُننی پڑتی ہیں کیونکہ اُس کا رِشتہ جُو ایسا ہے کہ وہ رِشتہ کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ اگر کِسی کے والِد کا خُدا نخواستہ اِنتقال ہوجائے تو کیا وہ اپنے شناختی کارڈ پہ اپنے باپ کا نام کٹوا دیتا ہے؟ نہیں، باپ اور بیٹے کا رِشتہ وہ ہے جِسے موت بھی جُدا نہیں کرسکتی تو باپ تو یہ رِشتہ توڑ نہیں سکتا بیٹے یہ رِشتہ توڑنا چاہیں تو توڑتے رہیں لیکن باپ سے تو نہیں ٹوٹتا۔ تو خُدا مُحبت کرنے پر اِتنا مجبُور ہے۔ اِسی لئے یہ عجیب و غریب بات ہے کہ خُدا جو قادرِ مُطلق ہے جو چاہے کر گُذرے اُسے پُوچھنے والا نہیں ہے لیکن اپنی محبت کے خِلاف کُچھ بھی تو نہیں کر پاتا۔ وہ بھی پابندِ وفا ہے اور بہت ہی مجبُور ہے۔

یہ حِکایت سُنا کے مسیح نے خُدا کی محبت کی صرف ایک جھلک دِکھائی ہے کہ خُدا اِس وقت دُنیا میں سب سے ز یادہ بدنام ہے۔ توہینِ خُدا جِتنی ہوتی ہے اِتنی توہین اور کِسی کی ہوتی نہیں لیکن وہ اپنا اِنتقام کِسی سے نہیں لیتا اپنے غُنڈے نہیں بھیجتا کہ فلاں کو جا کے مار ڈالو اُس نے میری توہین کی ہے وہ پھر بھی مُعاف کئے چلا جاتا ہے کیونکہ اُسکا نام العکوم ہے، مُعاف کرنے والا نہیں مُعافی اُس کا نام ہے؛ اُس کا نام محبت کرنے والا نہیں بلکہ محبت اُس کا نام ہے۔ ایسے پیار کرنے والے خُدا سے جو سراپا محبت ہو اُس کی ایک تصویر مسیح نے ہمیں دِکھائی اور یہ تصویر اگر ہمارے ذہن میں رہے اور ہماری نظروں کے سامنے رہے تو ہم ہر دفعہ یہ سوچیں کہ ہم کیسے پیار کرنے والے خُدا کا دِل توڑ رہے ہیں اور ہمیشہ توڑتے رہتے ہیں لیکن وہ ہمیشہ اِس ٹوٹے ہُوئے رِشتہ کو جوڑتا رہتا ہے کیونکہ اُس کا قول یہ ہے کہ جِسے میں نے جوڑا ہے اُسے کِسی کو نہیں توڑنے دونگا۔