Because there was no room for them in the inn. — Luke 2:7
By
Dr. Charles L. Fenberg Th.D., Ph.D.

بقلم جناب علامہ ڈاکٹر چارلس ۔ ایل۔ فین برگ۔ ٹی ایچ ۔ ڈی پی ایچ ڈی
(مترجمہ مدیر)

اور ان کے پہلوٹھا بیٹا پیدا ہوا۔ آپ (مریم بتولہ )نے اسے کپڑے میں لپیٹ کر
چرنی میں رکھ دیا کیونکہ ان کے لئے سرائے میں جگہ نہ تھی۔
(انجیل شریف راوی حضرت لوقا رکوع ۲آیت ۷)

رومی حکومت کے فرمان کے تحت جزیہ کی فراہمی کی غرض سے مردم شماریاں ہوا کرتی تھیں اور ہر فردِ بشر کو اپنے شہر میں نام لکھوانا پڑتا تھا۔ حضرت مریم بتولہ حمل سے تھیں۔ اس لئے لازماً اُنہیں بڑی آہستگی سفر کرنا تھا۔قبل اس سے کہ وہ بیت لحم میں پہنچے وہ چھوٹا سا گاؤ ں بھر چکا تھا۔ ایسی چھوٹي سی جگہ میں عموماً ایک ہی سرائے ہوتی تھی۔ جب سرائے بھرگئی توحضرت مریم بتولہ کو مجبوراً حضرت یوسف کے ساتھ اصطبل میں جانا پڑا۔ وہاں سیدنا عیسیٰ مسیح کی مبارک پیدائش ہوئی اورآپ کو آپ کی والدہِ ماجدہ نے چرنی میں رکھ دیا جہاں جانوروں کو چارہ کھلایا جاتا تھا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اِس کی وجہ مہمان نوازی کا فقدان نہ تھی ۔بلکہ شائد یہ کہ حضرت یوسف نے اپنے وہاں پہنچنے کا پیشگی میں انتظام ہی نہیں کیا تھا۔ عین ممکن ہے کہ اُنہیں اپنے کسی دوست کے ہاں یقیناً جگہ ملنے کی اُمید تھی ۔ لیکن جب حضرت یوسف وہاں پہنچے تواُن کے مہمان خانہ پر کوئی اور شخص قابض ہوچکا تھا۔ کچھ بھی ہو اس صورتِ حال میں بھی ہمارے قلوب کے لئے عظیم صداقتیں پنہاں ہیں ۔

مضائقہ نہیں اگر اس بات کو بار بار دہرایا جائے لیکن یہ حقیقت ہے واقعی بڑی عجیب اور حیرت انگیز کہ آپ کی آمد کے بے شمار وعدوں کے باوجود حالانکہ ملائک ملا اعلیٰ پر آپ کی حمد وتمجید میں نغمہ سراہوکر آپ کی پیدائش کی خوشخبری دے رہے تھے۔ آپ ایسی بے خبری سے آئے کہ کوئی آپ کو پہچان بھی نہ سکا۔ جب آپ آئے اورآپ کو سرائے میں جگہ دینے سے انکار کیا گیا۔ تویہ اسلئے ہواکہ آپ درِجنت ہمارے لئے کھول دیں اورعارضی ملاقات کے لئے نہیں بلکہ ہمارے ابدی قیام اورورثہ کے طورپر۔

انگریزی شاعر کیبل اپنی ایک نظم میں جس کا ترجمہ کچھ یوں ہوسکتاہے کہتاہے!

ایک نوزائدہ کے کپڑوں میں لپٹا اورچرنی میں رکھا ہوا بچہ ہردیاروملک کی اُمید
اورجلال، ساری دنیا کی اعانت اور دستگیری کے لئے آیا ہے۔ اُس کے پنکوڑے پر کوئی با امن
گھر تبسم نہیں تھا۔ مہمان اُس جگہ جہاں وہ شاہی طفل محوخواب تھا بڑے ناشائستہ انداز میں گنواروں کی طرح آتے جاتے تھے"(لفظی ترجمہ)
نہ صرف اپنی پیدائش کے وقت سیدنا مسیح کے لئے کوئی جگہ نہ تھی
بلکہ اپنی زندگی میں بھی سیدنا مسیح کے لئے کوئی جگہ نہ تھی۔

مقدس یوحنا نے ٹھیک لکھا ہے:" وہ اپنے گھر آیا اوراُس کے اپنوں نے اُسے قبول نہ کیا"(یوحنا ۱: ۱۱)۔ ناصرت میں بھی آپ کے لئے کوئی جگہ نہ تھی ۔ جب آپ ناصرت کے عبادت خانہ میں آئے جہاں آپ اکثر جایا کرتے تھے توآپ کو یسعیاہ نبی کی پیشینگوئی پڑھنے کودی گئی۔ یسعیاہ ۶۱: ۲ میں مندرج مسیح موعود سے متعلق پیشینگوئی پڑھنے کے بعد جب آپ نے اُسے اپنی ذاتِ خاص سے منسوب کیا توسامعین قہر آلود ہوکر آپ کو پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے کہ آپ کو سر کے بل گرادیں(لوقا ۴: ۲۹)۔ نہیں ناصرت میں آپ کے لئے جگہ نہ تھی۔

علاوہ بریں کفر نحوم میں بھی آپ کے لئے کوئی جگہ نہ تھی۔ جب آپ نے گدرینیوں کے ملک کے دوآدمیوں میں سے بدروحیں نکال تھیں تواس پر کچھ کم شووغوغانہ مچاتھا۔ بطور نتیجہ ساراشہر آپ کو ملنے کیلئے کھڑا ہوا نہ آپ کا خیر مقدم کرنے یاآپ کو کُل روحوں پر مختارِ مطلق قرار دے کر آپ کی جگہ بیکار پکار نے کیلئے نہیں بلکہ آپ کی منت کرنے کو کہ آپ اُن کی سرحدوں سے باہر چلیں جائیں(انجیل شریف راوی حضرت متی رکوع ۸: ۲۴)۔

پھر سامریہ میں بھی آپ کے لئے جگہ نہ تھی۔ جب سیدنا عیسیٰ مسیح کو معلوم ہوگیا کہ آپ کا اس دنیا سے رحلت فرماجانے کا وقت قریب آگیا ہے ۔ توآپ نے سینہِ سپر ہوکر یروشلیم جانے کو کمر باندھی کہ کوہِ کلوری پر گنہگاروں کے لئے اپنی جانِ شیریں قربان کریں۔ جب آپ کے قاصد آپ کے آگے آئے کہ سامریوں کے ایک گاؤں میں سے گذرکر آپ کے لئے تیاری کریں۔ تواُنہو ں نے آپ کوٹکنے نہ دیا کیونکہ آپ کا رُخ یروشلیم کی طرف تھا۔ (لوقا ۹: ۵۳)۔ نہیں نہیں ! سامریہ میں بھی آپ کےلئے جگہ نہ تھی۔

علی ہذا القیاس یہودیہ میں بھی آپ کے لئے جگہ نہ تھی۔ ہمارے آقا ومولا سیدنا عیسیٰ مسیح کے بھائی توٹھیک طور سے عیدِ خیام منانے کے لئے یروشلیم جاسکتے تھے لیکن آپ یہودیہ میں پھرنا نہیں چاہتے تھے۔ اس لئے کہ یہودی آپ کے قتل کی کوشش میں تھے۔ آپ کا قوم کی مذہبی زندگی میں دخل دینانا پسندیدہ فعل تھا۔ (یوحنا ۷: ۱) نہیں، یہودیہ میں آپ کے لئے جگہ نہ تھی۔

آپ کو تواپنی زندگی میں سردھرنے کوبھی جگہ نہیں ملی تھی۔ حالانکہ لومڑیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اورہوا کے پرندوں کے گھونسلے(متی ۸: ۲۰)۔ جب آپ کی موت وقت آیا توآپ صلیب پر مرے، گویا نہ توزمین پر آپ کے لئے جگہ تھی نہ آسمان میں ، وہاں آپ بالکل تنہا تھے ۔ مسیح کی تنہائی حقیقی اورہمہ جاتی تھی۔ آپ سچ مچ آدمیوں میں حقیر مردِ غمناک تھے۔ (یسعیاہ ۵۳)۔

دمِ ولادت مسیح کو سرائے میں جگہ نہ ملنا افسوسناک بات تھی، لیکن اپنی زمینی خدمت میں عوام کےدلوں میں آپ کو جگہ نہ ملنا زيادہ قابلِ افسوس بات ،تاہم یہ بات بھی اُتنی ہی سچ ہے کہ آج

اُن لوگوں کے دلوں میں جو آپ کے نام سے کہلاتے ہیں
سیدنا مسیح کے لئے کوئی جگہ نہیں۔

جیسے مارتھا کے گوناگوں فرائض کی وجہ سے مسیح اُس کی زندگی سے خوارج تھا ۔ و یسے ہی بہت لوگوں کے دلو ں میں جو اُس کے نام کا دم بھرتے ہیں اُس کے لئے کوئی جگہ نہیں (لوقا ۱۰: ۴۳)۔ دنیاوی تفکرات اُسے عوام کی زندگی سے خارج کئے رکھتے ہیں۔ انہیں کبھی اس بات کی ، کبھی اُس بات کی فکر کسائے جاتی ہے۔نیتجہ جس کا یہ ہوتاہے کہ وہ دل جس میں ہر روز سینکڑوں خیال نکلتے رہتے ہیں ، سیدنا مسیح کو اپنے اندر نہیں آنے دیتا۔ بیماریاں، نقصان اورخسارے ، قسم قسم کے بوجھ ، خطرات ، فکریں ، مسیح کوبہتوں کے دلوں سے جو کہتے ہیں کہ اُنہیں اُس کا عرفان حاصل ہے، خارج کئے رکھنے کا کام کئے جاتے ہیں ۔ پھر دینوی مسرتوں کا بھی یہی اثر ہوتاہے۔ لوگ اس زندگی کی عشرتوں میں اس قدر مستغرق ہوجاتے ہیں کہ ابدی زندگی کی باتیں اُن کی آنکھوں سے اوجھل ہوجاتی ہیں۔روزہ مرہ کے فرائضِ زندگی بھی آئے دن بڑھتے جاتے ہیں کہ مسیح کے لئے یا اُن باتوں کے لئے جو اُسے عزیز کوئی وقت نہیں دیتا۔ صدافسوس کہ گناہ بھی مسیح کو زندگی کے مرکز سے نکال پھینکنے میں بڑی عجیب اور موثر قوت رکھتاہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ لوگ جن کے دلوں میں مسیح کے لئے کوئی جگہ نہیں، بسا اوقات اپنے دلوں میں کسی ایسے گناہ کی پرورش کررہے ہوتے ہیں جسے ترک کرنے کو وہ تیار نہیں ہوتے۔ جب مسیح کو اُس جگہ پر جس کا وہ مستحق ہے متمکن کیا جاتا ہے تووہ ہرغیر چیز کو وہاں سے باہر نکال پھینکتاہے ۔ جب اور چیزیں پہلے اندر داخل ہوجاتی ہیں تووہ اُسے باہر رہنے دیتی ہیں ۔ انسان کی زندگی میں گناہ کا اثر یہ ہوتاہے خواہ وہ شخص مسیح کاپیرو ہونے کا مدعی ہو یا نہ ہو ، جیسے ایک پیالہ خالص پانی میں ایک بوند روشنائی کی ڈال دی جائے اوروہ ایک قطرہ معلوم طورپر سارے پانی کو ناپاک کردے۔

اپنے چوگرد نظر ڈالئے اوردیکھئے کہ مسیحی ممالک کے نظم ونسق میں کبھی ایسی کوئی جگہ نہیں ۔وہ بادشاہوں کا بادشاہ اورخداوند وں کا خداوند ہے لیکن کوئی ملک ایسا نہیں جہاں حضرتِ انسان سرکاری انتظام اُس کے ہاتھوں میں سونپ دے۔ عقلی معاملات میں بھی مسیح کے لئے جگہ نہ تھی۔ وہ الہٰی استاد ہے ۔ کسی شخص نے آج تک ایسا کلام نہیں کیا ۔ سب لوگ یہی پوچھتے تھے کہ اُسے ایسی حکمت ، جس کا وہ ہر وقت مظاہرہ کیا کرتے تھے۔ کہاں سے ملی! لیکن غیر نجات یافتگان میں سے کتنے لوگ ہیں جو اپنی ذہنی کشمکش میں اُسے مشاورت کرتے ہیں۔ پھر اُسے روحانی اُمور میں بھی کب جگہ دی جاتی ہے! بعض مذہبی قائدین کو جو محض انسان ہیں۔ مذہبی معاملات میں اُسے سے کہیں بڑھ چڑھ کر فوقیت دی جاتی ہے۔ کتنے ہیں جو اُس کے اہم ترین انتباہ کو کہ خدا کہ بادشاہی کودیکھنے یا اُس میں داخل ہونے کے لئے از سرنو پیدا ہونا ضرور ہے۔ قابل التفات سمجھتے ہیں؟ (یوحنا ۳: ۳) بہت لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ کہنے کو تیار ہیں کہ اُنہیں نجات دہندہ کی حاجت نہیں۔ فقط نمونہ درکا ہے۔ جب ہم اس حقیقت کومعلوم کرچکتے ہیں کہ حضرتِ انسان اپنے قصوروں اورگناہوں کے سبب سے مردہ ہے توہمیں اُس مردہ کی مثال جو افسیوں ۲: ۱ میں مرقوم ہے ، بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔ ہاں ، وہ شاہِ جلال ہماری روح کے پُرمحبت کا شانہ کا طلبگار ہے۔ اے کاش وہ ہم سب کو اُسے یہ جگہ یعنی اپنا دل دینے کےلئے آمادہ ورضامند پائے!